Sunday 26 August 2012

جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ


 


اقبال کو شاہین کی علامت کیوں پسند ہے اس سلسلے میں خود ہی ظفر احمد صدیقی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔
شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خوصیات پائی جاتی ہیں۔ خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہو شکار نہیں کھاتا ۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا ۔ بلند پرواز ہے۔ خلوت نشین ہے۔ تیز نگاہ ہے۔
اقبال کے نذدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتا ہے ۔ شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں جو نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ بن سکے اُردو کے کسی شاعر نے شاہین کو اس پہلو سے نہیں دیکھابال جبریلکی نظمشاہینمیں اقبال نے شاہین کو یوں پیش کیا ہے۔

حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ

جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

یہ پورب ، یہ پچھم ، چکوروں کی دنیا
میرا نےلگوں آسماں بے کرانہ

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیا نہ؟

 

 















2 comments:

  1. زبردست اقبال کے افکار اور وژن کو عام کرنا بہت ضروری ھے ورنہ مغرب کی یلغار ہمیں اور ہماری نسل کو راہ راست سے بھٹکا دے گی اقبال کی تعلیمات ایسے ھی ضروری ہین جس طرح ہماری زندگی میں قرآن و سنت ضروری ھے کیونکہ اقبال کی شاعری اصل میں قرآن و سنت ھی تو ھے ۔۔ آپ کا شکریہ آپ نے یہ سب کیا اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین 03313112111

    ReplyDelete
  2. اللہ پاک آپ کو قائم اور دائم رکھے

    ReplyDelete